Mehngai.... Essay

15:31:00 Unknown 0 Comments


مہنگائی ۔۔۔ایک عفریت
انسان کی تگ و دو کا ایک اہم مقصود بنیادی انسانی ضرورتوں کا حصول ہے۔ اسے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے کئے خوراک ،تن دھانپنے کو کپڑا اور موسموں کی تندی و تیزی سے بچے کے لئے مکان کی ضرورت ہوتی ہے۔ پتھر کے زمانے سے لے کر آج کے خلائی دور تک ، انسان کی ان ضرورتوں میں فرق نہیں آیا۔ جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا، اس کی سہو لیات میں اضافہ ہوتا گیا اور یہی سہولتیں زندگی کی ضرورتوں میں فرق نہیں آیا۔ جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا، اس کی سہولیات میں اضافہ ہوتا گیا اور یہی سہولتیں زندگی کی ضرورت بن گئیں۔ اجتماعی جدو جہد کے نتیجے میں نئے وسائل تک رسائی ہوئی۔ وسائل تک رسائی کے لئے انسان نے نقل مکانی، لکھی نئی دریافتیں اور نئی ایجادات کیں پھر ان وسائل پر قبضے کے لئے کشمکش شروع ہوئی۔ جس طبقے کو وسائل وافر مقدار میں میسر آئے وہ خوش حال ہو گیا اور جس طبقے کے حصے میں وسائل کم آئے اور افراد زیادہ ، ان کے ہاں آمد و خرچ کا توازن بگڑ کیا اور یہیں سے مہنگائی کی ابتدا ہوئی۔
آج ہم اکیسویں صدی کی دہلیز پہ کھڑے ہیں۔ عالمی صورت حالات کا معروضی جائزہ لیں تو مہنگائی کی وجوہ اور اثرات کا تقریباََ وہی نقشہ نظر آتا ہے جو صدیوں پہلے غیر مہذب دور میں تھا۔ پینے کے لئے صاف پانی کو ترستی مخلوق ، فٹ پاتھ اور کشتیوں میں زندگی گزار دینے والے لاکھوں کروڑوں انسان ، آج کے نام نہاد و مہذہب دور کی چیرہ دستیوں پر ماتم کناں ہیں۔ آج کا عالمی نقشہ یہ ہے کہ دنیا ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ طبقات میں تقسیم ہے ۔ لگ بھگ اسی فی صد وسائل پر ترقی یافتہ ممالک کا قبضہ ہے اور وہ پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ صرف وسائل ان کا قبضہ ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور دیگر علوم میں بھی وہ دوسرے ممالک سے آگے ہیں اور اس برتری کے زور پر غیر ترقی یافتہ ممالک کے وسائل پر قبضے کے لئےہر دم دندان آزتیز کیے ہوئے ہیں۔ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے عوام خون پسینہ ایک کر کے اور جان توڑ محنت کرنے کے باوجود بہت کم بنیادی ضرورتیں حاصل کر پاتے ہیں ان کا خام مال کوڑیوں کے مول ترقی یافتہ ممالک لے جاتے ہیں۔ ان غریب ممالک کی جہالت اور پس ماندگی سے فائدہ اٹھا کر انھیں آپس میں لڑایا جاتا ہے اور بچے کھچے وسائل اسلحہ فروخت کر کے حاصل کر لئے جاتے ہیں۔ (خلیجی جنگ اس کی ادنیٰ سی مثال ہے) غریب ممالک کے حکمران جب خلوص نیت سے اپنے عوام کی حالت بدلنا چاہتے ہیں تو مصنوعی مہنگائی پیدا کر کے ( کبھی پا بندیاں لگا کر اور کبھی سرمایہ نکال کر) حکمرانوں کے خلاف احتجاج کی لہر پیدا کی جاتی ہے۔ بے چینی بڑھتی ہے،جلسے جلوس، احتجاج اور مہنگائی کا گراف بڑھتا جاتا ہے۔ کبھی دو ممالک کی جنگ ہوتی ہے تو مہنگائی اور بڑھ جاتی ہے۔ عالمی استحصالی نظام مہنگائی پیدا کرتا ہے، اس کی پرورش کرتا ہے اور اسے قائم و دائم رکھتا ہے۔

You Might Also Like

0 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.