Iqbal ka tasswur e shaheen aur aj ka Muslim nau jawan essay

11:11:00 Unknown 9 Comments


اقبالؒ کا تصور شاہین اور آج کا مسلم جوان


حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ پاک وہند کے مشرکہ شاعر ہیں۔ ان کو شاعر ہند وستان کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ کیوں کہ وہ مذہب وملت سے ہٹ کر ہندوستان اور اہل ہندوستان کی بات کرتے ہیں۔ اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
؎ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستان ہمارا
اسی طرح جب وہ اسلام کی بات کرے ہیں تو صرف مسلمان کی بات کرتے ہیں۔ ہر قسم کے تفرقت سے بالا تر ہو کر سوچتے ہیں اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
؎ یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی    کچھ    ہو، بتاؤ    تو    مسلمان    بھی    ہو؟
اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔
؎فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا    زمانے    میں پنپنے کی یہی    باتیں    ہیں؟
اسی بنا پر اقبال ؒ ملا اِزم کے بھی خلاف ہیں کیوں کہ ان کی نظر مین ملا لوگون میں فرقہ بازی کو ہوا دیتے ہین اس لئے وہ ملاکے خلاف ہیں اور ایک مجاہد کو ملا کے مقابلے میں بہتر گردانتے ہیں اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
؎ الفاظ ومعنی میں تفاوت    نہیں    لیکن
ملاکی اذان اور ہے مجاہد کی اذان اور
مزید پڑھئے : وقت کی پابندی
یہ تمام تصوارت ان کے تصور خودی کے تابع ہیں اگر اقبال کے تصور خودی کو سمجھ لیا جائے تو باقی تمام تصورات آسانی سے سمجھ میں جاتے ہیں۔ان کے تصور خودی کے چار بنیادی مآخذ ہیں۔قران،حدیث ، مثنوی از مولانا روم اور حضرت مجدد الف ثانی کا نظریہ عبث۔ ان کا تصور شاہین بھی ان کے اسی تصور کا تابع ہے۔لہذا ذیل میں ان کے تصور شاہین کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہین کہ آج کا جوان کس حد تک اقبالؒ کے تصور شاہین پر کاربند ہے۔
حکیم الامت کے کلام میں شاہین کا لفظ مسلم نوجوانوں کے لئے بطور استعارا استعمال ہوا ہے یہ استعاراوہ مسلم نوجوانوں کے لئے اس لئے استعمال کرتے ہین کہ ان کو مسلم جوانوں کے اندر شاہین کی خصوصیات دکھائی دیتی ہیں جن کو وہ جوانوں میں مزید پھلتا پھولتا دیکھنا چا ہتے ہیں۔ وہ مسلم جوان کی دین و دنیا کی بھلائی اور کامیابی اسی مین دیکھتے ہیں جس طرح خود اقبالؒ دین و دنیا کو عزیز سمجھتے ہیں اور ساری زندگی اس کو ساتھ لے کر لتے رہےہیں۔ اس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ مگر مزے کی بات تو یہ ہے کہ مرنےکے بعد بھی دین و دنیا کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اب جبکہ وہ ابدی نیند سو رہے ہیں تو دین و دنیا کی وہ عظیم الشان ملامات کے درمیان سو رہے ہیں، ایک طرف بادشاہی مسجد دین کی علامت ہے تو دوسری جانب شاہی قلعہ دنیا کی علامت ہے ان دونوں عظیم علامات کے درمیان شاعر مشرق دفن ہیں۔
اقبال ؒ شاہین کی جن خصوصیات کی بنا پر مسلم نوجوانوں کے لئے شاہین کا استعارا استعمال کرتے ہیں وہ خصوصیات درج ذیل ہیں۔
1۔ خوداری اور غیرت مندی 
2۔ لامکانی(یعنی آشیانہ نہ بنا)
3۔ بلند پرواز
4۔ خوت نشینی
5۔ تیز نگاہی
شاہین کی یہ خصوصیات محض شاعرانہ تعلیٰ یا مبالغہ آمیزی ہی نہیں بلکہ یہ فقیرانہ خصوصیات بھی ہیں۔ انہی خوبیوں کی بنا پراقبال شاہین کو پسند کرتے ہیں اور مسلم نوجوانوں کے اندر یہ ساری خصوصیات دیکھنا چاہتے ہیں اس حوالے سے لکھتے ہیں
؎ پرواز ہے دونوں کی اسی    ایک    فضا    میں
کرگس کا جہان اورہے شاہیں کا جہاں اور
Idioms and Phrasal Verbs
شاہین کی اہم خوبی یہ بھی ہے کہ وہ آشیانوں کی تلاش مین نہیں رہتا بلکہ جہاں گزر اورقات کرنا پڑے کر لیتا ہے۔دورسری خوبی کہ وہ کبھی دست دراز نہیں کرتا بلکہ اپنا رزق خود دلاش کرتا ہے۔ کبھی کسی کا ماراہوا شکار نہیں کھاتا بلکہ خود اپنا شکار کرتا ہے۔ یہی خوبی اقبال کو پسند بھی ہے اور یہی خوبی وہ مسلم نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اندر خوداری اور قناعت پیدا ہو ۔ اسی کا پرچار وہ اپنی شاعری مین کرتےہیں۔ ان کے کلام سے تصور شاہین کے حوالے سے چند شعر ملاحظہ ہوں۔
؎ پرندوں    کی   دنیا کا درویش ہوں میں
کہ    شاہیں       بناتا       نہیں       آشیانہ
؎نہیں    تیرا    نشیمن    قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
؎گزر اورقت کر لیتا ہے    یہ کوہ بیاباں میں بھی
کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کار آشیاں بندی
یہ وہ چند نمایاں خصوصیات ہیں جو اقبال ؒ جوانوں میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ ان کی شاعری سے اس طرح کی ہزاروں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ان کی شاعری  ہی کا عطیہ یہ عرض پاک ہے۔ کیوں کہ ان دور کے نوجوانوں نے اقبالؒ کے پیغام کو گلے سے لگایا اور اس کو اپنی زندگی کا اوڑنا بچھونا جس کے نتیجے میں وہ یہ عرض پاک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ انسان اگر کسی کام کو کرنے کا ارادہ کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ ضرورت صرف اور صرف پختہ عزم کی ہے۔ بغیر کوشش کے کبھی منزلیں نہیں ملا کرتیں۔ بقول مولانا ظفر علی خان
؎ خدا نے آج تک    اس    قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مزید پڑھئے: قائداعظم
یہ عرض پاک ایک بہترین مثال ہے جو جوانانِ مسلم نے پختہ عزم سے حاصل کیا۔ لیکن وہ ماضی کا مسلم جوان تھا آج کا جوان اقبالؒ سے کوسوں دور ہے آج کا جوان اگر اقبال کو پڑھ کر ان کے تصورات کو اپنا لےتو اس ملک کی مو جودہ صورت بہتر ہو سکتی ہے۔ آج بھی بدر والا ولولہ اور جوش پیدا ہو جائے اور 1965 ء والا خلوص و جذبہ بیدار ہو جائے تو منز ل خود بخود قدم چومے ۔
 بقول شاعر
؎ فضا ئے بدر پیدا کر      فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
لیکن آج وہ فضا بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ آج ہم نےان تصورات کو کیا خود ان شخصیات کو بھی پس وپشت ڈال دیا ہے۔ جس پر اس سال یومِ اقبال کی چھٹی کی منسوخی مضبوط دلیل ہے۔ حکیم الا مت مسلم جوان کو شاہین بنانا چاہتے ہیں مگر آج کا مسلم جوان اپنے اندر کرگس کی خصوصیات پر نازاں ہیں اور اقبالؒ کے تصورات سے انحرافی رویہ اپنانا پسند کرتے ہیں۔بقول اقبال
؎ اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو    پرواز    میں    کوتاہی 
لیکن آج کے جوانوں کی پرواز میں کو تاہی آتی ہی نہیں ۔بقول اردو کےمزاحیہ شاعر سید ضمیر جعفری جنہوں نے اس شعر کی پیروڈی کر کے آج کے جوان کی جوبی بتا دی۔
؎ اے طائر لاہوتی ایسے بھی ہیں لوگ اب کہ
آتی ہی نہیں جن    کی    پرواز    میں    کوتاہی
آج کا جوان اوروں کے سہارے جی رہا ہے اور دوسروں کا محتاج بن کر رزق اور دنیا کی دوسری تمام آسائشیں تلاش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ سہارے تلاش کرنا موجودہ انسان کی مستقل عادت بن چکی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کوئی خضر ملے اور اس کو پار نکال کر لے جائے۔ اسے اس بات کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں رہا کہ سہارے انسان کو محتاج اور کمزورکر دیتے ہیں اس حوالے سے مولوی اسلم کا شعر بطور دلیل  کافی ہے۔
؎ اپاہج اور بھی کر دیں گی یہ بیساکھیاں تجھ کو
سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں
اقبالؒ نے بھی اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کی طرف اشارا کیا ہے۔
؎ تقلید کی    روش    سے    تو بہتر    ہے    خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مزید پڑھئے: تعلیم نسواں
اقبالؒ مسلم جوانوں کو سہاروں کی بجائے خود پر انحصار کرنے کا درس دیتے ہیں اور اس حوالے سے وہ مسلم جوانوں کی موجودہ صورتحال سے مایوس نظر نہیں ہیں بلکہ وہ پر امید ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جوانوں کے اندر خصوصیات موجود ہیں جن کو تراش خراش کر کام میں لانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
؎ نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویران سے
ذرا نم ہو تو    یہ مٹی    بڑی    ذرخیز ہے    ساقی
مگر آج کے جوان میں اقبال ؒ کے شاہین کی ایک خوبی بھی نہیں ہے۔ اس دور میں اقبالؒ کے شاہین کا تصور کرنا بھی بے سود ہے کیوں کہ یہ دور افراتفری کا دور ہے بوقل بندہ نا چیز ۔ 
؎کرتے ہیں وہ گلا کہ شاہینوں کے شہر میں
اک بھی شاہیں ملا نہ شاہینوں کے شہر میں
اب شاہین نہ ملنے کی وجہ میری طالب علمانہ رائے کے مطابق یہ ہے کہ آج قیادت کا فقدان ہے۔ ہمارے مذہبی ، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی لیڈران اور کار کنان اس کی خاص وجہ ہیں جو نوجوان نسل کو مسلمان کا درس دینے کی بجائے سنی ، شیعہ ، وہابی ، اہلحدیث اور بریلوی و حنفی ہونے کا درس دیتے ہیں اور اسی طرح سیاسی قائدین پاکستان کی بجائے پنجابی ، سندھی ، بلوچی اور پختون کا درس دے رہے ہیں جس وجہ سے اتحاد کا فقدان بڑھ رہا ہے اور شاہینی خصوصیات دب کر رہ گئی ہیں اگر ہم  آج بھی شاہین کی خصوصیات اپنے اندر دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک شعر ذہن میں بیٹھانا  ہو گا۔
؎ نزل کی جستجو میں کیوں پھر رہا ہے راہی
اتنا   عظیم    ہو     جا     منزل     تجھے     پکارے 

نوٹ: اگر کوئی ٹائپنگ کی غلطی ہے تو مہربانی فرما کر کمنٹ باکس میں بتایں۔
آپ اس مضمون میں کیسے بہتری لا سکتے ہیں؟


You Might Also Like

9 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.