Hub e Watan (Watan sy Muhabat) Urdu Essay

16:32:00 Unknown 37 Comments

Hub e Watan (Watan sy Muhabat) Urdu Essay

حب وطن


 ؎  ہم نشیں نرگس وشہلا ،رفیق گل ہوں میں
ہے چمن میر وطن، ہمسایہ بلبل ہوں میں
چمن گہوارہ ہے،دھرتی ماتا ہے۔ وطن گود ہے وطن ایک جنم بھومی کا نام ہے وطن اس سر زمین کو کہا جاتا ہے جس کی آغوش میں انسان جنم لیتا ےہے جس کی ہوائیں اسے پروان چڑھاتی ہیں اور جن کی گھٹاوں میں وہ ساری زندگی گزار دیتا ہے یہیں اس کی آرزوئیں اور تمنا ئیں بیدار ہوتی ہیں اور کبھی تکمیل کو پہنچ سکتی ہیں اور خوشی و مسرت کا باعث بنتی ہین اور کبھی اس کے دل میں رہ جاتی ہے اور پوری نہیں ہو پاتیں اس سر زمین کے ایک ایک ذرے کی آبیا ری کرت ہے۔ علامہ اقبال نے تو وطن کے ایک ایک ذرے کو دیوتا کا مقام دے دیا ہے۔
؎  پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
حب وطن کے معنی چاہت اور محبت  کے ہیں جبکہ وطن اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جہان انسان اپنی زندگی کے شب و راز گزارتا ہے وطن سے محبت فطرت انسانی کا تقاضہ ہے انسان جس جگہ چند روز بسر کرلے اس جگہ سے مانوس ہو جاتا ہے اور جس جگہ انسان پوری زندگی گزار دی ہو تو اس جگہ سے انس جذباتیوابستگی کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور وہ کسی لمحے بھی اس سے جدائی گوارہ نہیں کر سکتا
؎  حب وطن از ملک سلیمان خوش تر
خاروطن از سنبل و ریحان خوش تر
حضرت شیخ سعدیؒ کہتے ہین کہ وطن کا کانٹا سنبل و ریحان سے بھی زیادہ عزیز تر ہوتا ہے وطن کی مٹی سے محبت ہونا بلکل فطری امر ہے وطن سے محبت کا جذبہ عالمگیر ہے اور اس جذبے کا اسیر صرف انسان ہی نہیں بلکہ اس کی محبت کا دم جانور بھی بھر تے ہیں بلی جیسے حقیر جانور کو آپ کسی بھی بوری میں بند کر کے اس کے گھر سے کئی میل دور جا کر آزاد کریں آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ آپ سے بھی پہلے اپنے گھر واپس پہنچ جائے گی ۔
حضرت علامہ اقبالؒ کے بقول ہر انسان فطری طور پر اپنی جنم بھومی (پیدائش کی جگہ) سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے اس  کے لئے قربانی کرنے کو تیا ر رہتا ہے کیونکہ حب وطن ایک فطری جذبہ ہے عربی کا ایک مقولہ ہے
حب الوطن من الایمان
ترجمہ: وطن سے  محبت ایمان کا حصہ ہے
بقول شاعر
وطن پر فدا ہر انسان ہے
کہ حب وطن جزو ایمان ہے
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حب وطن کو اسلام میں کتنی اہمیت حاصل ہے اللہ تعا لی پر ایمان ، نبی آخر الزماںﷺ اور دوسرے رسولوں پر ایمان اللہ تعالی کی مقد س کتابون پر ایمان فرشتوں پر ایمان لانا اور جنت دوزخ پر ایمان لانا مسلمان کے لئے ضروری ہے اپنے وطن سے محبت یا وابستگی بھی ایک درجے میں ضروری ہے اور یہ فطری بھی ہے چناچہ یہ نا ممکن ہے کہ کسی مسلمان کا دل اپنے وطن اور اپنی سر زمین سے ایک پر خلوص وابستگی سے خالی ہو حب وطن کی بنیاد اخلاقی اور انسانی قدروں پر استوار ہونی چاہیے جو سر زمین ہمیں طرح طرح کی تعمتیں عطا کرتی ہے اور جو ابنائے وطن ہمیں محبت ہمدردی اور درد مندی کے انمول جذ بات سے نوازتے ہیں تقاضائے ایمان ہے کہ ہم ان سے بھی محبت کریں اور ان کے دکھ درد مین شریک ہوں اور حسب ضرورت ان کی مدد کریں رسول اکرم ﷺ کو بھی اپنے وطن سے بڑی محبت تھی جب کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر آپﷺ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو آپﷺ کو بہت دکھ ہوا آپ ﷺ نے مکہ کو مخاطب کر کے فرمایا
تو مجھے دنیا میں سب سے زیا دہ عزیز ہے لیکن کیا کروں تیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے
وطن کی محبت کا احساس انسان کو صیحح معنوں میں اس وقت ہوتا ہے جب زمانے اتفاقات و حالات اسے وطن سے کہیں دور لے جاتے ہیں پر دیس مین انسان خواہ کتنا ہی مطمئن اور خوشحال کیوں نہ ہو پھر بھی اسے وہ لمحات جو اس نے اپنے وطن کی آزاد فضاؤں میں گزارے ہوں یاد آتے ہیں ان لمحوں کی یاد رہ رہ کر ستاتی ہے اگر جسمانی طور پر وطن کو مراجعت اور اس کی زیارت ممکن نہ ہو تب بھی وہ اسے دل ہی دل میں یاد کرتا ہے اور تصور ہی تصور میں اپنے وطن کی خوبصورت تصویریں بنا کر خوش ہوتا رہتا ہے جو لمحے اس اپنے دوستوں عزیز و اوقارت اور ہم وطنوں کے در میان گزارئے ہوتے ہیں وطن کی فضاؤں میں پیش آنے والے واقعا ت فلم کی طرح اس کے ذہن میں گھومنے لگتے ہین اسے وطن کی پر رونق گلیوں کی یاد ستانے لگتی ہے چنانچہ وہ تڑپ اٹھتا ہے انسانی تڑپ کی یہی کیفیت جب ون کی روح ہے۔ حضرت یوسفؑ جو مصر پر حکومت کرتےتھے کنعان کے بھکاری کو بھی اس حکومت سے بہتر خیال کرتے تھے کیونکہ کنعان ان کا وطن تھا حاکم ہونے کے باوجود وطن کی خوشبو اور محبت مصر میں نہ تھی
؎  یوسف کہ بہ مصر بادشاہی می کرد
می گفت،    گدادبود    کنعان خوستر
مزید پڑھئے: والدین کی اطاعت
وطن کی محبت کا یہ پودا جب ایک تنا ور درخت بن جاتا ہے تو میں اس کے سائے میں ان و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہوں یہ ایک نہایت پاکیزہ اور ارفع و اعلیٰ جذبہ  ہے جو قومیں اس جذبے سے سرشار ہوتی ہیں تو کوئی دشمن اس کی طرف نگاہ غلط سے دیکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا اس کی روشن مثال خود ہم نے پیش کی کہ 1965ء کی جنگ میں ہم نے دشمن  کیا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمن کو ناکوں جنے چبوائے ، دشمن اپنا بہت سا فوجی سازوسامان چھوڑ کر بھاک کھڑا ہوا یہ سب ہماری اپنے پیارے وطن سے والہانہ محبت کا نتیجہ ہے کہ ہم نے وطن کی خاطر اپنی جانوں کی پرواہ نہ کی اور وقم کے جیالے اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے تلے لیٹ گئے۔
جب بھارت نے ناپاک ارادوں کے ساتھ ہمارے ملک پر حملہ کیا تو اسکی حفاظت کی خاطر پوری قوم ایک سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہم نے جو قربانیاں دیں ان کے پیچھے یہی جذبہ کار فرما تھا ہمارئے وہ شہید جنھوں نے اپنے خون سے وطن کے گلاب کی لالی کو دو گنا کر دیا ان کے دل اسی جذبے سے سر شار تھے۔ یہ سب قربانیاں وطن کی محبت کا عملی ثبوت ہیں وطن کی محبت کے دعوے کرنے کو حب الوطنی نہیں کہا جا سکتا بلکہ عملی ثبوت دینا حب الوطنی کہلاتا ہے انسان کو ایسے کام کرنے چاہیں جن سے وطن کی خدمت ہو انسان وطن کے لئے بڑی قربانی دینے ے دریغ نہ کرے جو لوگ اس جذبے سے سر شار ہوتے ہیں وہ وطن کے چپے چپے کو گلزار بنا دیتے ہیں۔
 ؎  خون دل دے کر نکھار ریں گے رخ برگ گلاب 
ہم    نے    گلشن    کے    تحفظ    کی    قسم    کھائی    ہے
ہم خاکی ہیں اور خاک سے وابستگی ہماری سرشت میں شامل ہے زندگی کا حسن خاک اور زمین ہی سے مستعار ہے شمس و قمر کی رعنائیاں لالہ و گل کی لب کشائیاں اور فکر و نظر کی آفاق پیمائیاں اسی خاک سے ابھرتی ہیں اور اس خاک پر اترتی ہیں یہی محور خیرو شر ہے اور مر کز و جمال و کمال ہے یہی خاک ہمارا مسکن ہے جنت کی بہاروں کے بعد ہماری پناہ گاہ اور ہر وقت ہماری کاوشیں اسی مٹی کو جنت نشان بنانے کے لئے وقف ہیں اسی مٹی میں ہمارے خواب دفن ہیں اسی مٹی میں ہمارے خوابوں کی تعبیریں لالہ و گل بن کر پھوٹتی ہیں ۔ یہی مٹی ہمارا وجود ہے اور جب تک فطرت کو مقصود ہو گرد کا طوفان اڑتا رہتا ہے۔ اور بالآخر یہ انگارہ خاک ہی کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔
میری مٹی نے دیا تھا مجھ کو میرا رنگ روپ
ڈھالتی     جاتی ہے     دنیا    اپنی صورت پر مجھے 
میں کہ    خاک     کی     لو     سے ہوا     میرا ظہور 
کاش ڈھونڈے کوئی میری خاک کے اندر مجھے 
خاک اور زمین  کے ساتھ ہمارا تعلق محض وجودی نہیں بلکہ قلبی ہے یہ تعلق سنگ وخشت سے نہیں بلکہ نظرئیے کی بنیاد پر ابھرتا اور کسی محبوب کی یاد پر استوار رہتا ہے پاکستان کی مٹی ہمیں ہمیشہ عزیز ہے یہاں کے ذرے ہمارے لئے دیوتا ہیں کہکشاں کے ستاروں سے کہیں روشن ہیں ماہتاب کی طباشیری کرنون سے کہین زیادہ در خشندہ ہین یہاں کی فضائیں نگہت افزاء اور یہاں کی ہوائیں مشکبار ہیں صرف اس لئے کہ
لا الہ الا اللہ 
کے نظریے پر اسکی بنیاد ہے جو سراپا بہار ہے اور کوئی خزاں بھی اس کے لئے پژمردگی کا پیغام نہیں لا سکتی  اور جسے اس نظریے سے محبت نہیں ہو محمد عربی ﷺسے تعلق اور وفا کا دعوی نہیں کر سکتا ۔ درودیوار ہمیں اس لئے پیارے ہین کہ وہ جیسے بھی ہیں اپنے ہیں اور پھر ان کے حصول کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا خاک و خون میں لتھڑی ہوئی جہد مسلسل کا ایک جگر پاش سلسلہ ہے سینکڑوں روشن و رعنا چیزوں کی فصل کٹی تھی تب کہین جا کر دامن ماہتاب میں چاندنی کے پھول کھلے تھے اور جبین شب کی ظلمتوں میں نور پھیلا تھا۔
؎ کتنے مہ و نجوم ہوئے نذر شب
اے غم دل اب تو سحر چاہئے
آزادی کے اس ولوے کو تازہ رکھنے کے لئے سید احمد شہیدؒ اٹھے اور دلوں کو انگاروں کی طرح گرما گئے۔ کتنی ہی تحریکیں چلیں اور کتنے ہی گم نام مجاہدوں کے دلوں کو بوسہ دیتے رہے۔اور کتنی ہی آہیں ہواؤں میں بکھر گئیں ۔ ان کوششوں اور تحریکوں ، آنسوؤں اور آہوں نے اس چنگاری کو سلگائے رکھا ۔ جب ٹیپو سلطان شہید نے اپنے خون کی لو سے شعلہ بنایا تھا جسے مجدد الف ثانی نے جذبہ و جنون کی دولت بخشی تھی اور جسے شاہ ولی اللہ نے اپنا تن من اور دھن دیا تھا ۔ 1857ء کے شہیدوں کے لہو کی تاب اسی نور سحر کے لئے تھی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کے دل کی تڑپ بھی اسی چنگاری کی تابانی کے لئے تھی سر سید احمد خان کی تگ و دو کا مرکز و محور یہی تھا۔
مولانا محمد علی جوہر سے علامہ اقبال تک ، مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر مولانا شبیر احمد عثمانی تک اور چودھری رحمت علی سے لے کر مولانا ظفر علی خان تک کتنی شخصیتیں ہین جن کی نگاہوں کی تمنا اسی صدائے لالہ کی رفعت کے لئے وقف تھی اور پھر تاریخ کی آنکھ نے یہ بھی دیکھا کہ قائد اعظم کی بے مثال قیادت نے ان خوابوں کو تعبیر عطا کی اور اس تعبیر میں رنگ بھرنے کے لئے مسلمانوں نے اپنا لہو دیا۔ وہ گھر سے بے گھر ہوئے ۔ ماؤں نے اپنے راج دلارے اور آنکھوں کے تار نذر کئے ۔ ہزاروں عصمتوں کا نذرانہ دیا اور درندوں کی پیاس اپنے خون سے بجھائی
؎ یہ کیا تھا؟ کس لئے تھا؟مدعا کیا تھا؟ماجرا کیا تھا؟
مجھے   معلوم    ہے    یہ    جزد و حرف لا الہ کیا تھا
یہ ساری کاوشیں تھیں     دین کی ، ایمان کی خاطر
ہزاروں الفتیں تھیں    ایک      پاکستان     کی خاطر
یہ مقصد تھا یہاں     اسلام کا    فرمان    ہو جاری 
مکمل طور پر اس مل     میں   قرآن      ہو جاری
قیام پاکستان کے بعد اس امانت کو سنبھالنا ہمارا کام تھا مگر افسوس کہ ہم نے یہاں فرقہ بندی کا بازار گر کیا ۔ مذہب کو اتحاد کی بجائے اختلاف کا ذریعہ بنایا۔ صوبائی تعصبات کو ہوا دی ۔ اسلام کے جذبہ اخوت کی دھجیاں اڑائیں یہاں تک کہ قائد اعظم کے پاکستا کو دو لخت کر دیا ۔ کاش ہم قائد کے عطا کردہ اصولوں "اتحاد، ایمان اور تنظیم" کو پیش نظر رکھتے تو ہمیں دل کی شکستگی کا نظارہ نہ کرنا پڑتا ۔ پاکستان قائد اعظم ؒ کے عزم صمیم اور یقین کامل کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گربانوں مین جھانکین اپنی لغرشوں کا اعتراف کریں اپنے اللہ کے ساپنے گڑ گڑائیں اور اسی کی پارگہ سے تائید مانگیں کیونکہ اس کی رحمت کے بغیر ہماری کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ہم اس وطن عزیز کو اسی انداز سے بلند کر سکتے ہین کہ اس کے درودیوار شجر ھجر یہاں کت کہ ذروں سے بھی ایمان سمجھ کر محبت کریں ۔ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب سے اپنا ربط قائم رکھیں اپنی روایا ت کو ہر لمحہ رو برو رکھیں اور وطن کی مٹی کو عقیدت کی پلکوں سے جومتے رہین کہ اس کی بقا کے ساتھ ہماری بقا وابستہ ہے روھ کی تازگی بھی اسی سے ہے اور دل کی شگفتگی بھی اسی سے ہے ۔ تاریخ و تہذیب اور فکرو عمل کے یہ سارے مظاہر نہ ہوں تو شاید روحانی راحت میسر نہ آسکے اور اہل وطن سے ہمیں اس لئے محبت ہے کہ اس کی تاریخ کے حاشیوں پر ہمارے اسلاف کے لہو کی کلکاریاں ہیں اور اس لئے بھی کہ اس کے کوہ و دامن ستاروں سے زیادہ درخشان چاند  سے زیادہ حسین اور پھولوں سے زیادہ دل آویز ہیں 
؎ یہ دھوپ چاندنی ہے یہ پتھر بھی پھول ہیں
کیا جانئے سحر کیا میری خاک وطن میں ہے




You Might Also Like

37 comments:

  1. the first photo is not opening. Sometime blogger losses some pics so please upload the first pic again

    ReplyDelete
  2. the first photo is not opening. Sometime blogger losses some pics so please upload the first pic again

    ReplyDelete
  3. opening perfectly here. Anyways I'll upload it again

    ReplyDelete
  4. Thanks v gud essay

    ReplyDelete
  5. These are not clear. please upload in bright light.

    ReplyDelete
    Replies
    1. will upload soon. Meanwhile you can see other essays

      Delete
  6. please upload this essay in bright light we cannot read it.please clear it

    ReplyDelete
  7. its so informative ,,,,thank u

    ReplyDelete
  8. Sir i cannot read these essays clearly and sir i want to request you that i want an essay on taleem e naswan in urdu

    ReplyDelete
    Replies
    1. clear version of all essays will be uploaded soon

      Delete
  9. It's Gud but it is not clear.. !

    ReplyDelete
    Replies
    1. clear version will be uploaded soon. keep visiting

      Delete
  10. Last pic open nahi horahi 😔

    ReplyDelete
  11. last one is not opening۔ upload it once again

    ReplyDelete

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.