Hub e Watan (Watan sy Muhabat) Urdu Essay

16:32:00 Unknown 37 Comments

Hub e Watan (Watan sy Muhabat) Urdu Essay

حب وطن


 ؎  ہم نشیں نرگس وشہلا ،رفیق گل ہوں میں
ہے چمن میر وطن، ہمسایہ بلبل ہوں میں
چمن گہوارہ ہے،دھرتی ماتا ہے۔ وطن گود ہے وطن ایک جنم بھومی کا نام ہے وطن اس سر زمین کو کہا جاتا ہے جس کی آغوش میں انسان جنم لیتا ےہے جس کی ہوائیں اسے پروان چڑھاتی ہیں اور جن کی گھٹاوں میں وہ ساری زندگی گزار دیتا ہے یہیں اس کی آرزوئیں اور تمنا ئیں بیدار ہوتی ہیں اور کبھی تکمیل کو پہنچ سکتی ہیں اور خوشی و مسرت کا باعث بنتی ہین اور کبھی اس کے دل میں رہ جاتی ہے اور پوری نہیں ہو پاتیں اس سر زمین کے ایک ایک ذرے کی آبیا ری کرت ہے۔ علامہ اقبال نے تو وطن کے ایک ایک ذرے کو دیوتا کا مقام دے دیا ہے۔
؎  پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
حب وطن کے معنی چاہت اور محبت  کے ہیں جبکہ وطن اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جہان انسان اپنی زندگی کے شب و راز گزارتا ہے وطن سے محبت فطرت انسانی کا تقاضہ ہے انسان جس جگہ چند روز بسر کرلے اس جگہ سے مانوس ہو جاتا ہے اور جس جگہ انسان پوری زندگی گزار دی ہو تو اس جگہ سے انس جذباتیوابستگی کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور وہ کسی لمحے بھی اس سے جدائی گوارہ نہیں کر سکتا
؎  حب وطن از ملک سلیمان خوش تر
خاروطن از سنبل و ریحان خوش تر
حضرت شیخ سعدیؒ کہتے ہین کہ وطن کا کانٹا سنبل و ریحان سے بھی زیادہ عزیز تر ہوتا ہے وطن کی مٹی سے محبت ہونا بلکل فطری امر ہے وطن سے محبت کا جذبہ عالمگیر ہے اور اس جذبے کا اسیر صرف انسان ہی نہیں بلکہ اس کی محبت کا دم جانور بھی بھر تے ہیں بلی جیسے حقیر جانور کو آپ کسی بھی بوری میں بند کر کے اس کے گھر سے کئی میل دور جا کر آزاد کریں آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ آپ سے بھی پہلے اپنے گھر واپس پہنچ جائے گی ۔
حضرت علامہ اقبالؒ کے بقول ہر انسان فطری طور پر اپنی جنم بھومی (پیدائش کی جگہ) سے محبت رکھتا ہے اور بقدر اپنی بساط کے اس  کے لئے قربانی کرنے کو تیا ر رہتا ہے کیونکہ حب وطن ایک فطری جذبہ ہے عربی کا ایک مقولہ ہے
حب الوطن من الایمان
ترجمہ: وطن سے  محبت ایمان کا حصہ ہے
بقول شاعر
وطن پر فدا ہر انسان ہے
کہ حب وطن جزو ایمان ہے
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حب وطن کو اسلام میں کتنی اہمیت حاصل ہے اللہ تعا لی پر ایمان ، نبی آخر الزماںﷺ اور دوسرے رسولوں پر ایمان اللہ تعالی کی مقد س کتابون پر ایمان فرشتوں پر ایمان لانا اور جنت دوزخ پر ایمان لانا مسلمان کے لئے ضروری ہے اپنے وطن سے محبت یا وابستگی بھی ایک درجے میں ضروری ہے اور یہ فطری بھی ہے چناچہ یہ نا ممکن ہے کہ کسی مسلمان کا دل اپنے وطن اور اپنی سر زمین سے ایک پر خلوص وابستگی سے خالی ہو حب وطن کی بنیاد اخلاقی اور انسانی قدروں پر استوار ہونی چاہیے جو سر زمین ہمیں طرح طرح کی تعمتیں عطا کرتی ہے اور جو ابنائے وطن ہمیں محبت ہمدردی اور درد مندی کے انمول جذ بات سے نوازتے ہیں تقاضائے ایمان ہے کہ ہم ان سے بھی محبت کریں اور ان کے دکھ درد مین شریک ہوں اور حسب ضرورت ان کی مدد کریں رسول اکرم ﷺ کو بھی اپنے وطن سے بڑی محبت تھی جب کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر آپﷺ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو آپﷺ کو بہت دکھ ہوا آپ ﷺ نے مکہ کو مخاطب کر کے فرمایا
تو مجھے دنیا میں سب سے زیا دہ عزیز ہے لیکن کیا کروں تیرے باشندے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے
وطن کی محبت کا احساس انسان کو صیحح معنوں میں اس وقت ہوتا ہے جب زمانے اتفاقات و حالات اسے وطن سے کہیں دور لے جاتے ہیں پر دیس مین انسان خواہ کتنا ہی مطمئن اور خوشحال کیوں نہ ہو پھر بھی اسے وہ لمحات جو اس نے اپنے وطن کی آزاد فضاؤں میں گزارے ہوں یاد آتے ہیں ان لمحوں کی یاد رہ رہ کر ستاتی ہے اگر جسمانی طور پر وطن کو مراجعت اور اس کی زیارت ممکن نہ ہو تب بھی وہ اسے دل ہی دل میں یاد کرتا ہے اور تصور ہی تصور میں اپنے وطن کی خوبصورت تصویریں بنا کر خوش ہوتا رہتا ہے جو لمحے اس اپنے دوستوں عزیز و اوقارت اور ہم وطنوں کے در میان گزارئے ہوتے ہیں وطن کی فضاؤں میں پیش آنے والے واقعا ت فلم کی طرح اس کے ذہن میں گھومنے لگتے ہین اسے وطن کی پر رونق گلیوں کی یاد ستانے لگتی ہے چنانچہ وہ تڑپ اٹھتا ہے انسانی تڑپ کی یہی کیفیت جب ون کی روح ہے۔ حضرت یوسفؑ جو مصر پر حکومت کرتےتھے کنعان کے بھکاری کو بھی اس حکومت سے بہتر خیال کرتے تھے کیونکہ کنعان ان کا وطن تھا حاکم ہونے کے باوجود وطن کی خوشبو اور محبت مصر میں نہ تھی
؎  یوسف کہ بہ مصر بادشاہی می کرد
می گفت،    گدادبود    کنعان خوستر
مزید پڑھئے: والدین کی اطاعت
وطن کی محبت کا یہ پودا جب ایک تنا ور درخت بن جاتا ہے تو میں اس کے سائے میں ان و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہوں یہ ایک نہایت پاکیزہ اور ارفع و اعلیٰ جذبہ  ہے جو قومیں اس جذبے سے سرشار ہوتی ہیں تو کوئی دشمن اس کی طرف نگاہ غلط سے دیکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا اس کی روشن مثال خود ہم نے پیش کی کہ 1965ء کی جنگ میں ہم نے دشمن  کیا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمن کو ناکوں جنے چبوائے ، دشمن اپنا بہت سا فوجی سازوسامان چھوڑ کر بھاک کھڑا ہوا یہ سب ہماری اپنے پیارے وطن سے والہانہ محبت کا نتیجہ ہے کہ ہم نے وطن کی خاطر اپنی جانوں کی پرواہ نہ کی اور وقم کے جیالے اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں کے تلے لیٹ گئے۔
جب بھارت نے ناپاک ارادوں کے ساتھ ہمارے ملک پر حملہ کیا تو اسکی حفاظت کی خاطر پوری قوم ایک سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہم نے جو قربانیاں دیں ان کے پیچھے یہی جذبہ کار فرما تھا ہمارئے وہ شہید جنھوں نے اپنے خون سے وطن کے گلاب کی لالی کو دو گنا کر دیا ان کے دل اسی جذبے سے سر شار تھے۔ یہ سب قربانیاں وطن کی محبت کا عملی ثبوت ہیں وطن کی محبت کے دعوے کرنے کو حب الوطنی نہیں کہا جا سکتا بلکہ عملی ثبوت دینا حب الوطنی کہلاتا ہے انسان کو ایسے کام کرنے چاہیں جن سے وطن کی خدمت ہو انسان وطن کے لئے بڑی قربانی دینے ے دریغ نہ کرے جو لوگ اس جذبے سے سر شار ہوتے ہیں وہ وطن کے چپے چپے کو گلزار بنا دیتے ہیں۔
 ؎  خون دل دے کر نکھار ریں گے رخ برگ گلاب 
ہم    نے    گلشن    کے    تحفظ    کی    قسم    کھائی    ہے
ہم خاکی ہیں اور خاک سے وابستگی ہماری سرشت میں شامل ہے زندگی کا حسن خاک اور زمین ہی سے مستعار ہے شمس و قمر کی رعنائیاں لالہ و گل کی لب کشائیاں اور فکر و نظر کی آفاق پیمائیاں اسی خاک سے ابھرتی ہیں اور اس خاک پر اترتی ہیں یہی محور خیرو شر ہے اور مر کز و جمال و کمال ہے یہی خاک ہمارا مسکن ہے جنت کی بہاروں کے بعد ہماری پناہ گاہ اور ہر وقت ہماری کاوشیں اسی مٹی کو جنت نشان بنانے کے لئے وقف ہیں اسی مٹی میں ہمارے خواب دفن ہیں اسی مٹی میں ہمارے خوابوں کی تعبیریں لالہ و گل بن کر پھوٹتی ہیں ۔ یہی مٹی ہمارا وجود ہے اور جب تک فطرت کو مقصود ہو گرد کا طوفان اڑتا رہتا ہے۔ اور بالآخر یہ انگارہ خاک ہی کی چادر اوڑھ کر سو جاتا ہے۔
میری مٹی نے دیا تھا مجھ کو میرا رنگ روپ
ڈھالتی     جاتی ہے     دنیا    اپنی صورت پر مجھے 
میں کہ    خاک     کی     لو     سے ہوا     میرا ظہور 
کاش ڈھونڈے کوئی میری خاک کے اندر مجھے 
خاک اور زمین  کے ساتھ ہمارا تعلق محض وجودی نہیں بلکہ قلبی ہے یہ تعلق سنگ وخشت سے نہیں بلکہ نظرئیے کی بنیاد پر ابھرتا اور کسی محبوب کی یاد پر استوار رہتا ہے پاکستان کی مٹی ہمیں ہمیشہ عزیز ہے یہاں کے ذرے ہمارے لئے دیوتا ہیں کہکشاں کے ستاروں سے کہیں روشن ہیں ماہتاب کی طباشیری کرنون سے کہین زیادہ در خشندہ ہین یہاں کی فضائیں نگہت افزاء اور یہاں کی ہوائیں مشکبار ہیں صرف اس لئے کہ
لا الہ الا اللہ 
کے نظریے پر اسکی بنیاد ہے جو سراپا بہار ہے اور کوئی خزاں بھی اس کے لئے پژمردگی کا پیغام نہیں لا سکتی  اور جسے اس نظریے سے محبت نہیں ہو محمد عربی ﷺسے تعلق اور وفا کا دعوی نہیں کر سکتا ۔ درودیوار ہمیں اس لئے پیارے ہین کہ وہ جیسے بھی ہیں اپنے ہیں اور پھر ان کے حصول کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا خاک و خون میں لتھڑی ہوئی جہد مسلسل کا ایک جگر پاش سلسلہ ہے سینکڑوں روشن و رعنا چیزوں کی فصل کٹی تھی تب کہین جا کر دامن ماہتاب میں چاندنی کے پھول کھلے تھے اور جبین شب کی ظلمتوں میں نور پھیلا تھا۔
؎ کتنے مہ و نجوم ہوئے نذر شب
اے غم دل اب تو سحر چاہئے
آزادی کے اس ولوے کو تازہ رکھنے کے لئے سید احمد شہیدؒ اٹھے اور دلوں کو انگاروں کی طرح گرما گئے۔ کتنی ہی تحریکیں چلیں اور کتنے ہی گم نام مجاہدوں کے دلوں کو بوسہ دیتے رہے۔اور کتنی ہی آہیں ہواؤں میں بکھر گئیں ۔ ان کوششوں اور تحریکوں ، آنسوؤں اور آہوں نے اس چنگاری کو سلگائے رکھا ۔ جب ٹیپو سلطان شہید نے اپنے خون کی لو سے شعلہ بنایا تھا جسے مجدد الف ثانی نے جذبہ و جنون کی دولت بخشی تھی اور جسے شاہ ولی اللہ نے اپنا تن من اور دھن دیا تھا ۔ 1857ء کے شہیدوں کے لہو کی تاب اسی نور سحر کے لئے تھی۔ مولانا عبید اللہ سندھی کے دل کی تڑپ بھی اسی چنگاری کی تابانی کے لئے تھی سر سید احمد خان کی تگ و دو کا مرکز و محور یہی تھا۔
مولانا محمد علی جوہر سے علامہ اقبال تک ، مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر مولانا شبیر احمد عثمانی تک اور چودھری رحمت علی سے لے کر مولانا ظفر علی خان تک کتنی شخصیتیں ہین جن کی نگاہوں کی تمنا اسی صدائے لالہ کی رفعت کے لئے وقف تھی اور پھر تاریخ کی آنکھ نے یہ بھی دیکھا کہ قائد اعظم کی بے مثال قیادت نے ان خوابوں کو تعبیر عطا کی اور اس تعبیر میں رنگ بھرنے کے لئے مسلمانوں نے اپنا لہو دیا۔ وہ گھر سے بے گھر ہوئے ۔ ماؤں نے اپنے راج دلارے اور آنکھوں کے تار نذر کئے ۔ ہزاروں عصمتوں کا نذرانہ دیا اور درندوں کی پیاس اپنے خون سے بجھائی
؎ یہ کیا تھا؟ کس لئے تھا؟مدعا کیا تھا؟ماجرا کیا تھا؟
مجھے   معلوم    ہے    یہ    جزد و حرف لا الہ کیا تھا
یہ ساری کاوشیں تھیں     دین کی ، ایمان کی خاطر
ہزاروں الفتیں تھیں    ایک      پاکستان     کی خاطر
یہ مقصد تھا یہاں     اسلام کا    فرمان    ہو جاری 
مکمل طور پر اس مل     میں   قرآن      ہو جاری
قیام پاکستان کے بعد اس امانت کو سنبھالنا ہمارا کام تھا مگر افسوس کہ ہم نے یہاں فرقہ بندی کا بازار گر کیا ۔ مذہب کو اتحاد کی بجائے اختلاف کا ذریعہ بنایا۔ صوبائی تعصبات کو ہوا دی ۔ اسلام کے جذبہ اخوت کی دھجیاں اڑائیں یہاں تک کہ قائد اعظم کے پاکستا کو دو لخت کر دیا ۔ کاش ہم قائد کے عطا کردہ اصولوں "اتحاد، ایمان اور تنظیم" کو پیش نظر رکھتے تو ہمیں دل کی شکستگی کا نظارہ نہ کرنا پڑتا ۔ پاکستان قائد اعظم ؒ کے عزم صمیم اور یقین کامل کا نتیجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گربانوں مین جھانکین اپنی لغرشوں کا اعتراف کریں اپنے اللہ کے ساپنے گڑ گڑائیں اور اسی کی پارگہ سے تائید مانگیں کیونکہ اس کی رحمت کے بغیر ہماری کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ہم اس وطن عزیز کو اسی انداز سے بلند کر سکتے ہین کہ اس کے درودیوار شجر ھجر یہاں کت کہ ذروں سے بھی ایمان سمجھ کر محبت کریں ۔ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب سے اپنا ربط قائم رکھیں اپنی روایا ت کو ہر لمحہ رو برو رکھیں اور وطن کی مٹی کو عقیدت کی پلکوں سے جومتے رہین کہ اس کی بقا کے ساتھ ہماری بقا وابستہ ہے روھ کی تازگی بھی اسی سے ہے اور دل کی شگفتگی بھی اسی سے ہے ۔ تاریخ و تہذیب اور فکرو عمل کے یہ سارے مظاہر نہ ہوں تو شاید روحانی راحت میسر نہ آسکے اور اہل وطن سے ہمیں اس لئے محبت ہے کہ اس کی تاریخ کے حاشیوں پر ہمارے اسلاف کے لہو کی کلکاریاں ہیں اور اس لئے بھی کہ اس کے کوہ و دامن ستاروں سے زیادہ درخشان چاند  سے زیادہ حسین اور پھولوں سے زیادہ دل آویز ہیں 
؎ یہ دھوپ چاندنی ہے یہ پتھر بھی پھول ہیں
کیا جانئے سحر کیا میری خاک وطن میں ہے




37 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Waqt ki Pabandi Urdu Essay

15:54:00 Unknown 26 Comments

Waqt ki Pabandi Urdu Essay


26 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Waldain ki Ata'at Urdu Essays

15:48:00 Unknown 41 Comments

Waldain ki Ata'at Urdu Essays


41 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Ustad ka Ehtram Eassay in urdu

15:41:00 Unknown 23 Comments


Ustad ka Ehtram Eassay in urdu

استاد کا احترام

استاد کی سختی باپ کی محبت سے بہتر ہے
اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد کی حیثت ،اہمت اور مقام مسلم ہے۔ کیونکہ استاد ہی نو نہالان قوم کی تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔ استاد ہی قوم کے نو نہالان اور نوجوانوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرتا ہے۔ وہاں وہ ان کے مختلف علمی، سائنسی ،فنی اور پیشہ ورانہ مہارتوں کا سامان کرتا ہے۔ والدین بچےکی جسمانی پرورش کرتے ہیں جبکہ استاد کے ذمے بچے کی روحانی پرورش ہوتی ہے۔ اس سے استاد کی حثیت اور اہمیت والدین سے کسی طرح کم نہیں بلکہ ایک لحاظ سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ:  پیغمبر انہیں کتا ب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور تمہیں وہ سب کچھ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہےکہ "انما بعثت معلما"
ترجمہ: بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جس شخص نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہے اور میں اس کا غلام ہوں ۔ چاہے وہ مجھے بیچ دے یا آزاد کر دے۔ پھر فرمایا ۔ ہم خدا کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم دیا اور جاہلوں کو دولت کیونکہ دولت عنقریب فنا ہو جائے گی اور علم لا زوال ہے۔ امام غزالیؒ آسمان علم و فضل کے درخشندہ ستارے ہیں وہ لکھتے ہین کہ جب تک تم اپناسب کچھ علم کو نہ دے ڈالو علم تمہیں اپنا کوئی حصہ نہ دے گا۔ لیکن آج کل تو بقول اقبالؒ
رہ گئی رسم آذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ  رہ گیا تلقین غزالی     نہ     رہی
مزید پڑھئے: والدین کی اطاعت
مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے دیکھا کہ اس کے بیٹے مامون اور امین اس  بات پر جھگڑ رہے تھے کہ استاد کے جوتے کون اٹھائے ۔آخر استاد کے کہنے پر وہ ایک ایک جوتا اٹھالائے اور اگلے روز دربار مین یہ سوال کیا گیا کہ آج سب سے زیادہ عزت کس کی ہےسب نے کہا کہ خلیفہ کی عزت سب سے زیادہ ہے۔ لیکن خلیفہ نے بتایا کہ آج سب سے زیادہ عزت استاد کی ہے جس کے جوتےاٹھا نے میں شہزادے فخر محسوس کرتے ہیں۔
شمس العلماء مولوی میر حسنؒ علامہ اقبالؒ کے استاد تھے۔ علامہ اپنے استاد کا بے حد احترام کرتے تھے آپ ہی کے مشورے پر حکومت نے مولوی صاحب کو شمس العلماء کا خطاب دیا گیا۔ جب حکومت نے پوچھا کہ مولوی صاحب نے کون سی کتاب لکھی ہے؟ تو علامہ اقبال ؒ نے جواب دیا کہ ان کی زندہ کتاب میں خود ہوں ۔ اک دفعہ علامہ اقبالؒ اپنے چند دوستوں کے ہمراہ سیالکوٹ کے بازار مین اس حالت مین بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک پاؤں میں جاوتا تھا اور دوسرے پاؤن میں نہیں تھا۔ اچانک علامہ نے دور سے مولوی صاحب کو دیکھا ۔ وہ اسی حالت مین دوڑ کر ان کے پاس گئے ان کو سلام کیا اور نہایت مودبانہ انداز مین ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ یہاں تک کہ نولوی صاحب کو ان کے کھر پہنچا کر واپس اپنے دوستوں میں آگئے۔
انسان جس سے جو کچھ بھی سیکھے اس کا احترام فرض ہے۔ اسگر سیکھنے والا سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض رٹا ہے۔بے معرفت ہے۔ صرف گفتار کی دولت ہے۔ اعمال کا حسن نہیں ۔اور وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہو بے سود ہے۔ علم کسی بھی نوعیت کا ہو ۔دینی ہو یا دنیاوی ہو یا گفتاری عطا کرنے والا ۔بہرحال قابل عزت ہے۔ اور جب تک ادب و احترام کا جذبہ دل کی گہرائیوں سے نہین پھوٹے گا اس وقت تک نہ تو علم کا گلزار مہک سکے گا اور نہ وہ علم سیکھنے والے کے قلب و نظر کو نورانی بنا سکے گا۔ باق تمام چیزیں اسان بنا تا ہے۔ اور انسان کو معلم بناتا ہے۔اس لیے اس کا کام دنیا کے تمام کاموں سے زیادہ اہم ،مشکل اور قابل قدر ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ ،روحانی رشتہ ہے۔ یہ تعلق دل کے گرد کھومتا ہے اور دل کے افق محبت واردات کی کہکشاں سے نکھرتا ہے۔
خموش اے دل بھری محفل مین چِلانا نہیں اچھا 
ادب پہلا قرینہ     ہے    محبت کے    قرینوں    میں
رسول پاک ﷺنے خود کو معلم فرمایا آپﷺ کے شاگرد یعنی آپ ﷺ کے صحابہ کرام آپﷺ کا احترام اس قدر کرتے تھے کہ دنیائے عا لم کی تاریخ ایسی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وہ خود کو سانپ سے ڈسوا لیتے تھے مگر آپ ﷺ کے آرام میں خلل نہیں آنے دیتے تھے۔ حضورﷺ کے وضو  سے گرنے والے پانی کو ذمیں پر نہ گرنے دیتے تھے اپنے چہروں پر مل لیتے تھے۔ اور میدان جنگ میں خود کو ان کی ڈھال بنا لیتے تھے۔ 
مزید پڑھئے: حب وطن یا وطن سے محبت
خلیفہ ہاران الرشید نے معلم وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں پڑھایا کریں ، امام مالکؒ نے فرمایا"علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ تم  کچھ سیکھنا چا ہتے ہو تو میر ے حلقہ احباب میں آ سکتے ہو۔ خلیفہ آیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے اور اہل علم مسلمان کا احترام کیا جائے۔ اور یہ سنتے ہی خلیفہ شاگرد انہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔
جو لوگ استا د کا احترام کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کا علم نور بن جاتا ہے۔ اور ان کی دینوی اور روحانی ظلمتوں کو چاند کی چاندنی اور پھولوں کی مہک عطا ہوتی ہے۔ عزت اللہ پاک کی عطا ہوتی ہے کسی انسان کی دین نہیں ۔یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ احترام استاد سے شاگرد اپنے حسب ونسب کی عزت کا اظہار کرتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ' علم معزز لوگوں مین وجہ عزت ہوتا ہےاور جاہلوں میں دہی علم توہین کا باعث بن جاتا ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ سانپ  کے منہ مین چلا جائے تو زہر بن جاتا ہے اور صدف مین داخل ہو جسئے تو موتی بن جاتا ہے۔ گویایہ انسان کا اپنا رویہ اپنابرتاؤ اور اپنا کردار ہے کہ چاہے تو وہ علم کو اپنے لیے تور کا سمندر بنا لے اور چاہے تو علم کو غرور تکبر کا باعث بنا کر ابو جہل بن جاے تعظیم میں عظمت ہے جو شاخ چھک جاتی ہے اسی پر پھل لگتا ہے۔ اور صراحی سر نیچا کرکے ہی جام کو سیراب کرتی ہے۔ گویا جو شاگرد استاد کے حضور جھکتا ہے وہی علم کے نور کو بھیلانے کا حق دار قرار پا یا ہے۔
جو عالی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سرنگوں    ہو    کر    بھرا    کرتی    ہے    پیمانہ
استاد ایک ہوتا ہے اور شاگرد کا ماحول بھی ایک ہے اور درس بھی ایک اور کتاب بھی ایک مگر کوئی شاگرد علم و فضیلت کی کہکشاں کا ستارہ بن جاتا ہے۔ اور کوئی اپنا رزق خاک راہ میں تلاش کرتا ہے۔دینے والے کی توجہ اور استاد کا فیض لینے والے کے ظرف کے مطابق گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے۔ اگر زمین ہی بنجر ہو تو پانی دینے والے کی ہر کاوش ناکام ہو جاتی ہے اور اگر ذرا نم ہو اور اکتساب کی صلاحیت ہو تو ذرخیز گلزار بن جاتی ہے۔ یہ تو محض اس دنیا کی بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ استاد کی دعا ہے تو اخروی زندگی مین بھی نکھار آجاتا ہے۔
استاد باغبان ریاض نجات ہے۔ کتاب صرف معلوبات کا بیش بہا ذریعہ ہے مگر یہ استاد کی ذات ہے جو تعلیم دیتی ہے۔ تعلیم صرف نصاب رٹا دینے کا نام نہین بلکہ یہ تعلیم و تربیت ہےاور تزکیہ بھی استاد اپنی روھ اپنے شاگردوں مین پھونک دیتا وہ اخلاق وکردار کی عظمت کا چلتا برتا پیکر ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر تقدس جاگتااور احترام کود بخود ابھرتا ہے۔ اس کا عمل اس کے علم کا آئینہ ہوتا اور اس کی روشنی مین شاگردون کے اخلاق سنوارتا اور کردار نکھارتا ہے۔ استاد کی ہر بات ہر عمل اس کے علم کا آئینہ ہوتا ہے اور اس کی روشنی میں شاگردوں کے اخلاقی سنوارتا اور کردار نکھارتا ہے۔ استاد کی ہر بات ہر عمل اور ہر ایک قابل تقلید نمونہ ہوتا ہے۔ یہی وہ عظمت ہے جس کے سابنے تخت اناج بھی جھکتے ہین یہ اسی کا فیض ہے کہ وہ حیوان کو انسان اور انسان کو باکدا انسان بنا دیتا ہے اسی لیے روئے حدیثاستاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے۔ اس کا ھق اپنے شاگردون پر انا ہی ہے جتنا کہ پاب کا اولاد پر ۔ ایک اور ارشاد رسالت ہےکہ استاد کا احترام تعظیم خداوندی میں داخل ہے۔ ہر عظیم انسان کے دل میں اپنے استاد کے لئےاحترام کے بے پایاں جزبات ہوتے ہیں۔یہی اس کی عظمت کی دلیل ہے۔
سکندر اعظم اپنے استاد کا بے حد احترام کرتا تھا۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو سکندر نے جواب دیا ۔  میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا جب کہ میرا استادارسطو مجھے زمین سے پھر آسمان پر لے گیا۔ میرا باپ حیات فانی ہے اور استاد موجب حیات جاودانی ہے۔ میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی۔ علامہ اقبال ؒ نے ٹھیک فرمایا ہے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر 
جس کی صنعت ہے روح انسانی
استاد اگر صیحح معنوں میں استاد ہو تو وہ اپنے شاگردون کی زندگیاں بدل سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئند ہ نسلوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی استاد کے ہاتھ میں ہے۔ وہ زندگی کو جس رخ پہ موڑ سکتا ہے۔ معلم اگر اپنےعلم کی منہ بولتی تصویر اور اخلاق و آداب کا نمونہ ہو تو اس کی ذات معاشرے میں مرکزی حثیت رکھتی ہے۔ وہ قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔صالح انقلاب برپا کر سکتا ہے استاد اپنے زیر تعلیم شاگردون کی خودی کو چمکا کر ان مین انفرادی اجتماعی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ تاریخ مین اچھے اساتذہ نے ہر دور مین یہ کام کیا ہے۔ کہ ان کے نقوش تاریخ کے صفحات پر ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں بھی نظر آنے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مشاہیر عالم کی تمام شہرت عظمت ان کے عظیم اساتذہ کی کاوشون کی مرہون منت ہے۔ لہذا استاد کو اس کے شایان شان مقام ملنا چاہے۔
تھےوہ بھی دن کہ خدمت استادکے عوض
جی چاہتا    تھا    کہ    ہدیہ    دل    پیش    کیجئے
دین اسلام میں استاد کا مقام 
دین اسلامنے استاد کو بڑے منصب و مقام پر فائز کیا ہے۔ سرور کائناتﷺ جہان دوسرے مناسب جلیلہ نے نوازے گئے وہاں آپ کو معلم اعظم کی مسند نشینی بھی تفویض ہوئی ۔ ارشاد باری تعالی ہے
اس آیت سے یہ حقیت واضح ہوتی ہے کہ سرور کائنا تﷺ خاتم الانبیاء کے مقام پر فائز ہیں۔ اس کے با وصف ایک معلم کا کردار ادار کرنے سے آپ ﷺکی شان مین قدح وارد نہیں ہوئی۔
استاد شاگرد کا باہمی ربط
دینی نقطہ نظر سے استاد شاگرد کا باہمی ربط تعلیم بے حد گہرا ہے۔ موجودہ مادی دور مین جہاں ہماری بہت سی اخلاقی اور روحانی قدر یں برباد ہوئیں ، استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔ جب علم محض کسب معاش کی خاطر حاصل کیا جائے تو وہ انسانی رگ و پےمیں سماتا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جب استاد اور شاگرد کے درمین تکلف اور جھجھک کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے تو شاگرد اپنے آپ کو چشمہ فیض سے اتنا سیراب نہیں کر پاتا جتنا کہ ہونا چاہئے۔
کچھ وہ کھچے کھچے رہے کچھ ہم تنے تنے
اس کش مکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا
1۔ اطاعت استاد
طالب علم کا پہلا فرض یہ ہے کہ اپنے محسن کے احسان عظیم تا زندگی یاد رکھے۔ اس کے حکم سے سر تابی نہ کرے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے راستے مین دریا عبور کرنا تھا۔ سکندر اعظم نے در یا عبور کرنے میں پہل کی۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میں آپ سے پہلے کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس دفعہ میں نے سوچاکہ کہیں دریا زیادہ گہرا نہ ہو جو آپ کو لے ڈوبے۔ میرے جیسے سکندر پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن آپ جیسا عظیم استاد صدیوں مین پیدا ہوتا ہے۔
2۔ آداب مجلس
استاد کا درجہ والد سے کسی طرح کم نہیں ۔جس طرح والد حقیقی اولاد کی جسمانی تربیت کرنا ہے اسی طرح استاد اس کی روحانی تربیت کا کفیل ہوتا ہے۔ طالب علم کا فرض ہے کہ استاد کی موجودگی میں آداب مجلس ملحوظ رکھے۔ یہ آداب شاگرد مجلس نبوی ﷺ سے سیکھنے چاہیں۔ حضورﷺ اور صحابہ کرام کے تعلق کے جہاں اور کئی پہلو ان مین استاد اور شاگرد کا بھی پہلو تھا۔ اس لئے کہ سردار النباء ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا منصب ایک معلم اعظم کا بھی تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ 
ترجمہ: اپنی آوازوں کو پیغمبر ﷺ کی آواز سے اونچا مت ہونے دو۔ اور ان سے زور زور سے باتین مت کرو۔ جس طرح تم آپس میں کر لیا کرتے ہو۔ 
حضرت شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی فرماتے ہیں
"اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے استاد کی آواز سے اپنی آوارز کو اونچا کرنا صریحاََ نا شائستگی ہے۔"
صحابہ کرام کا بیان ہے کہ وہ مجلس نبویﷺ میں یوں بیٹھتے تھے جیسے ۔

ترجمہ: گویا ہمارے سر پر پرندے بیٹھے ہیں کہ ذرا سی حرکت کرنے پر اڑ جائیں گے۔
3۔تعظیم و احترام:
 استاد کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ تعظیم وا حترام مین یہ امر بھی شامل ہے کہ شاگرد استاد کو سلام کرے۔
الغرض استاد منبع رشد و ہداہت ہے۔ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرےمین مینار نور ہے۔انسانیت
 کا ارتقا استاد کے مرہون منت ہے۔ جو انسانکو زمین کی پستیوں سے نکال کر آسمانکی وسعتوں
 اور بلندیوں میں لے جاتا ہے۔ ایسی باکمال اور بے مثال ہستی کا جتنا احترام کیا جائے کم ہے
نوٹ: اگر کوئی ٹائپنگ  کی غلطی نظر آئے تو کمینٹ باکس میں ضرور بتائیں۔شکریہ

آپ اس مضمون میں کیا بہتری لا سکتے ہیں؟










23 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Science k krishmay urdu essay

15:29:00 Unknown 2 Comments

Science k krishmay urdu essay for intermediate and metric Students



2 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Quaid e Azam Essay in Urdu

15:21:00 Unknown 2 Comments

Quaid e Azam Essay in Urdu



2 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Taleem e Niswan Essay

15:03:00 Unknown 50 Comments

Taleem e Niswan Essay in urdu



50 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Allama Iqbal Essay

14:43:00 Unknown 8 Comments

Allama Iqbal Essay in Urdu




8 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Integration Solved Exercise 3.7

14:25:00 Unknown 0 Comments

Integration Solved Exercise 3.7 easy method





0 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Integration Solved Exercise 3.6

14:15:00 Unknown 0 Comments

Integration Solved Exercise 3.6 easy method















0 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.

Integrtion Solved Exercise 3.5

13:44:00 Unknown 0 Comments

Integrtion Solved Exercise 3.5 easy method



















0 comments:

Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.