جی چاہتا تھا کہ ہدیہ دل پیش کیجئے
دین اسلام میں استاد کا مقام
دین اسلامنے استاد کو بڑے منصب و مقام پر فائز کیا ہے۔ سرور کائناتﷺ جہان دوسرے مناسب جلیلہ نے نوازے گئے وہاں آپ کو معلم اعظم کی مسند نشینی بھی تفویض ہوئی ۔ ارشاد باری تعالی ہے
اس آیت سے یہ حقیت واضح ہوتی ہے کہ سرور کائنا تﷺ خاتم الانبیاء کے مقام پر فائز ہیں۔ اس کے با وصف ایک معلم کا کردار ادار کرنے سے آپ ﷺکی شان مین قدح وارد نہیں ہوئی۔
استاد شاگرد کا باہمی ربط
دینی نقطہ نظر سے استاد شاگرد کا باہمی ربط تعلیم بے حد گہرا ہے۔ موجودہ مادی دور مین جہاں ہماری بہت سی اخلاقی اور روحانی قدر یں برباد ہوئیں ، استاد اور شاگرد کا رشتہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔ جب علم محض کسب معاش کی خاطر حاصل کیا جائے تو وہ انسانی رگ و پےمیں سماتا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جب استاد اور شاگرد کے درمین تکلف اور جھجھک کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے تو شاگرد اپنے آپ کو چشمہ فیض سے اتنا سیراب نہیں کر پاتا جتنا کہ ہونا چاہئے۔
کچھ وہ کھچے کھچے رہے کچھ ہم تنے تنے
اس کش مکش میں ٹوٹ گیا رشتہ چاہ کا
1۔ اطاعت استاد
طالب علم کا پہلا فرض یہ ہے کہ اپنے محسن کے احسان عظیم تا زندگی یاد رکھے۔ اس کے حکم سے سر تابی نہ کرے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم اپنے استاد ارسطو کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے راستے مین دریا عبور کرنا تھا۔ سکندر اعظم نے در یا عبور کرنے میں پہل کی۔ دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ میں آپ سے پہلے کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس دفعہ میں نے سوچاکہ کہیں دریا زیادہ گہرا نہ ہو جو آپ کو لے ڈوبے۔ میرے جیسے سکندر پھر بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن آپ جیسا عظیم استاد صدیوں مین پیدا ہوتا ہے۔
2۔ آداب مجلس
استاد کا درجہ والد سے کسی طرح کم نہیں ۔جس طرح والد حقیقی اولاد کی جسمانی تربیت کرنا ہے اسی طرح استاد اس کی روحانی تربیت کا کفیل ہوتا ہے۔ طالب علم کا فرض ہے کہ استاد کی موجودگی میں آداب مجلس ملحوظ رکھے۔ یہ آداب شاگرد مجلس نبوی ﷺ سے سیکھنے چاہیں۔ حضورﷺ اور صحابہ کرام کے تعلق کے جہاں اور کئی پہلو ان مین استاد اور شاگرد کا بھی پہلو تھا۔ اس لئے کہ سردار النباء ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کا منصب ایک معلم اعظم کا بھی تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ: اپنی آوازوں کو پیغمبر ﷺ کی آواز سے اونچا مت ہونے دو۔ اور ان سے زور زور سے باتین مت کرو۔ جس طرح تم آپس میں کر لیا کرتے ہو۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی فرماتے ہیں
"اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے استاد کی آواز سے اپنی آوارز کو اونچا کرنا صریحاََ نا شائستگی ہے۔"
صحابہ کرام کا بیان ہے کہ وہ مجلس نبویﷺ میں یوں بیٹھتے تھے جیسے ۔
ترجمہ: گویا ہمارے سر پر پرندے بیٹھے ہیں کہ ذرا سی حرکت کرنے پر اڑ جائیں گے۔
3۔تعظیم و احترام:
استاد کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ تعظیم وا حترام مین یہ امر بھی شامل ہے کہ شاگرد استاد کو سلام کرے۔
الغرض استاد منبع رشد و ہداہت ہے۔ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرےمین مینار نور ہے۔انسانیت
کا ارتقا استاد کے مرہون منت ہے۔ جو انسانکو زمین کی پستیوں سے نکال کر آسمانکی وسعتوں
اور بلندیوں میں لے جاتا ہے۔ ایسی باکمال اور بے مثال ہستی کا جتنا احترام کیا جائے کم ہے
نوٹ: اگر کوئی ٹائپنگ کی غلطی نظر آئے تو کمینٹ باکس میں ضرور بتائیں۔شکریہ
آپ اس مضمون میں کیا بہتری لا سکتے ہیں؟
37 comments:
Confused? Feel Free To Ask
Your feedback is always appreciated. We will try to reply to your queries as soon as time allows.